ایک مجذوب آپؒ کے ڈبہ میں آسوار ہوا اور سامنے والی سیٹ پر ایک ہندو کے پاس جا بیٹھا۔ ہندو نے اس کے میلے کچیلے کپڑے دیکھ کر کراہت کی۔ اس پر مجذوب نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا اور کہنے لگا ’’جہاں تبادلہ ہوا ہے وہاں ہی جانا پڑے گا‘‘
عظیم شاہ مجذوب:سکھوں کے آخری عہد اور انگریزوں کے اوائل عہد حکومت میں لاہور میں یہ مجذوب رہا کرتا تھا پہلے یہ فوج میں گھوڑا سوار تھا اور پانچ ہتھیار لگاکر گرائونڈ سٹیڈیم میں پھیرا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ انگریز آگئے انگریز آگئے۔ سٹیڈیم کے پاس اس زمانہ میں ایک پتراوہ تھا۔ قاضی لاہور کو پھانسی کا حکم ہوا تو اس کو ہاتھی پر چڑھا کرپھانسی گھاٹ میں لے جارہے تھے اس قاضی کا نام شیخ امام دین تھا تو یکدم ایک طرف سے سائیں عظیم شاہ آتے دکھائی دیئے۔ قاضی نے آپ کو دیکھ کر فریاد کی تو آپ نے فرمایا کہ تم کو کوئی پھانسی نہیں دے سکتا۔ جب ان کو پھانسی پر لٹکایا گیا تو ایک طرف سے سانڈھنی سوار آئے اور شیخ امام دین قاضی لاہور کی رہائی کا پروانہ لے آئے چنانچہ آپ کو رہا کردیا گیا پھر آپ گڑھی شاہو میں آکر دربار حضرت جان محمد حضوریؒ میں رہنے لگے اور یہی وفات پاکر دفن ہوئے قبر آپ کی مقبر حضرت جان محمد حضوریؒ سے جانب شمال واقع ہے۔
مولوی عبداللہ مجذوب:مولوی فیروز دین اپنی تصنیف ’’جہاد زندگی‘‘ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب لاہور کے رہنے والے اور اچھے ذی علم آدمی تھے مگر خدا جانے کیا ہوا کہ مجذوب ہوگئے۔ اکثر ایک نیلی چادر میں رہاکرتے تھے۔ سب کے سامنے پیشاب پاخانہ کردیتے اور اگر کوئی کچھ پیش کرتا تو اس میں تھوڑا سا چکھ کر باقی زمین پر پھینک دیتے۔ مولوی فیروز دین لکھتے ہیں کہ میں بھی دو تین دفعہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور میں نے دیکھا کہ جو سوال میرے دل میں ہوتا وہ بغیر پوچھے اس کا جواب دے دیتے تھے۔حضرت پیر بہار شاہ رحمۃ اللہ علیہ:حضرت پیر بہار شاہؒ مجذوب بزرگ تھے۔ لاہور کے قریب راوی کے بیلے میں سرکنڈوں کی کٹیا میں رہتے تھے۔
ایک مجذوب کا واقعہ:ایک دفعہ آپؒ کی ہمشیرہ صاحب مجیٹھہ میں علیل ہوگئیں۔ حضورؒ ان دنوں اپنی تدریسی مصروفیت کی وجہ سے گجرات تشریف فرما تھے۔آپؒ کو اطلاع دی گئی تو فوراً ضروری انتظامات کر کے ریل پر گھر روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک مجذوب آپؒ کے ڈبہ میں آسوار ہوا۔ اور سامنے والی سیٹ پر ایک ہندو کے پاس جا بیٹھا۔ ہندو نے اس کے میلے کچیلے کپڑے دیکھ کر کراہت کی۔ اس پر مجذوب نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا اور کہنے لگا ’’جہاں تبادلہ ہوا ہے وہاں ہی جانا پڑے گا‘‘ حضورؒ نے فرمایا ’’ ہمارے دل میں خیال آیا کہ اس اللہ کے بندے کی نظر پڑی ہے تو ہندو پر‘‘ خیال کا آنا ہی تھا کہ مجذوب وہاں سے اٹھا اور ہمارے پاس آبیٹھا۔ اور کہنے لگا یہ ہندو فلاں فلاں محکمہ میں ملازم ہے اس کا تبادلہ گھر سے دور ہوگیا ہے اور یہ وہاں جانا نہیں چاہتا اور تبادلہ رکوانے کی کوشش میں ہے۔ حالانکہ وہاں جانے سے اس کی ترقی ہوگی پھر اس کا تبادلہ گھر کے قریب پہلی ہی جگہ پر ہو جائے گا اور یہ شخص مسلمان ہوگا‘‘جب شاہدرہ کے قریب پہنچے تو اس مجذوب نے گاڑی کی سیٹ پر جہاں بیٹھا ہوا تھا۔ زور سے ہاتھ مارا اور کہا ’’رک جا‘‘ گاڑی بغیر سٹیشن رک گئی اور نیچے اتر کر ادھر ادھر پھرنے لگا ہمیں خیال آیا اس طرح تو ہمیں دیر ہو جائے گی۔ لاہور سے امرتسر جانے والی گاڑی بھی نکل جائے گی۔ ہمشیرہ صاحبہ کی طبیعت بھی علیل ہے۔ اتنے میں وہ مجذوب پھر ہمارے ڈبے میں آسوار ہوا اور ہمارے پاس آکر کہنے لگا’’وہ گاڑی بھی روکی ہوئی ہے وہ آپؒ کو لے کر ہی جائے گی اور فکر نہ کریں بہن جی بھی روبصحت ہیں ’’گاڑی کا عملہ دوڑ دھوپ کررہا تھا کہ کہیں کسی نے زنجیر تو نہیں کھینچی۔ اسی طرح سیٹ پر پھر ہاتھ مارا اور گاڑی چل دی۔ لاہور سٹیشن پر پہنچے تو امرتسر جانے والی گاڑی سیٹیاں بجا رہی تھی اور سگنل بھی نیچے تھا۔ گاڑی سے جب اترے تو وہ مجذوب بھی ساتھ ہولیا اور امرتسر والی گاڑی میں سوار کروا کر سلام کرکے چلا گیا۔ اور گاڑی چل دی یہ گاڑی تقریباً آدھ گھنٹہ لیٹ ہوئی۔ گاڑی کے مسافر کہہ رہے تھے کہ کافی دیر سے سگنل ڈائون ہے گارڈ بھی جھنڈیاں دے رہا اور سیٹی بجا رہا تھا لیکن گاڑی ہے کہ چلنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ شاید ان بزرگوں ہی کا انتظار تھا۔ جب آپؒ گھر پہنچے تو آپؒ کی ہمشیرہ صاحبہ بھی کافی حد تک روبصحت تھیں دراصل اللہ کے بندوں کے سفر و حضر اور تمام معاملات عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔میاں نتھا قادری:میاں نتھا قادری سرہند کے رہنے والے اور قوم پراچہ سے تھے، جوانی کے زمانے میں وہ حضرت میاں میر قادری لاہوری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی، اور ایک طویل عرصہ تک آپ کی خدمت میں رہے، حضرت میاں میر ان پر خاص توجہ اور بے حد شفقت فرماتے تھے۔ سکینۃ الاولیاء میں ہے کہ میاں میر کی عادت تھی کہ جو شخص آپ کی خدمت میں رہ کر استفادہ اور استفاضہ کرتا، کچھ دن کے بعد آپ اسے اجازت مرحمت فرماتے، اور ارشاد فرماتے کہ اب تم خود یادالٰہی میں مشغول ہو، اور اپنے ساتھ کسی کو بہت کم رکھتے لیکن میاں نتھا کو ایک لمحے کے لئے بھی اپنے سے جدا نہ ہونے دیتے۔
استغراق:آخر میں میاں نتھا پر استغراق اور بے خودی کا یہ عالم تھا کہ انہیں دنیا و مافیہا کی خبر نہ تھی اکثر اوقات کسی بلند دیوار پر مربع بیٹھ کر کئی دن گزار دیتے بعض اوقات دن رات کسی جنگل یا ویرانے میں کسی قبر کے سرہانے بیٹھے رہتے، حضرت میاں میر کسی آدمی کو بھیجتے کہ جائو نتھا کو جو دیوار پر بیٹھا ہے اسے خبر دار کرکے لے آئو، کیوں کہ اس نے کئی روز سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ملا خواجہ بہاری کا بیان ہے کہ جس روز میاں نتھا نے وفات پائی وہ کچھ معمولی سے بیمار تھے اور حضرت میاں میر کے حجرے کے سامنے چار پائی پر بیٹھے ہوئے مشاہدئہ جمال حق میں مستغرق تھے۔ وہ بہت دیر تک اسی حالت میں رہے، مجھ سے حضرت میاں میر نے فرمایا ذرا اٹھ کر دیکھو تو سہی کہ میاں نتھا زندہ بھی ہیں یا نہیں؟ میں نے ان کے قریب جاکر ان کو ہلایا مگر وہ وفات پاچکے تھے۔ پھر آپ نے اپنے مریدین کو ان کی تجہیز و تکفین کے لئے حکم دیا، شیخ عبدالغنی کا بیان ہے کہ جب جنازہ اٹھا تو حضرت میاں میر نے مجھ سے فرمایا کہ ہمارے آگے آگے چلو میں نے دیکھا کہ آپ آبدیدہ ہو کر فرماتے جاتے ہیں کہ ہمارے گھر کا فقر میاں نتھا لے گیا، پھر فرمایا کہ ہماری وفات کے بعد ہمیں میاں نتھا کے پاس دفن کرنا، میاں نتھا کی قبر حضرت میاں میر کے روضہ مبارک کے قریب واقع ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں